Sunday 18 October 2015

یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ بس یہیں سے ملے

یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ بس یہیں سے مِلے
ہمیں تو دل کا سکوں چاہیے، کہیں سے ملے
تلاش کرتے ہوئے جن کو عمر بِیت گئی
مِرے وہ اشکِ نِدامت تِری جبِیں سے ملے
ڈرو نہیں، تہِ دریا بھی اِک کِنارا ہے
یہ وہ مقام ہے پانی جہاں زمِیں سے ملے
ہزار چشمِ کرم فرشِ راہ تھی، لیکن
ہمِیں بضِد تھے، ہمیں جو ملے وہِیں سے ملے
یہ شان و شوکتِ محراب و گنبدِ زر پوش
مکان دیکھ لیا، کون اب مکِیں سے ملے

شاہنواز زیدی

No comments:

Post a Comment