یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ بس یہیں سے مِلے
ہمیں تو دل کا سکوں چاہیے، کہیں سے ملے
تلاش کرتے ہوئے جن کو عمر بِیت گئی
مِرے وہ اشکِ نِدامت تِری جبِیں سے ملے
ڈرو نہیں، تہِ دریا بھی اِک کِنارا ہے
ہزار چشمِ کرم فرشِ راہ تھی، لیکن
ہمِیں بضِد تھے، ہمیں جو ملے وہِیں سے ملے
یہ شان و شوکتِ محراب و گنبدِ زر پوش
مکان دیکھ لیا، کون اب مکِیں سے ملے
شاہنواز زیدی
No comments:
Post a Comment