Monday 12 October 2015

بند تھا جن پر فرات آرزو پھرتے رہے

بند تھا جن پر فراتِ آرزُو پھرتے رہے
اپنے ہاتھوں میں لیے خالی سبُو پھرتے رہے 
گُنگ تھیں سب کی زبانیں خوفِ حاکم کے سبب
لوگ ہونٹوں میں دبائے گُفتگُو پھرتے رہے 
حُسن تھا ہنگامہ آراء اندرونِ ذات، اور
بے خبر عشاق دشت و کاخ و کُو پھرتے رہے 
اب کھُلا ہے، وہ تماشا تھا یہی یک دو نفس
جس تماشے کی طلب میں چارسُو پھرتے رہے 
خُشک تھی لیکن پرندوں نے رکھا پاس و لحاظ
جب بھی کی پرواز، گردِ آبجُو پھرتے رہے 
آرزو میں تھا خسارہ اور پشیمانی سوا
فائدے میں تھے کہ جو بے آرزُو پھرتے رہے 
زور آور تھی خزاں، باغات میں برگِ نحیف
بے اماں پیشِ ہوائے تُند خُو پھرتے رہے

اعجاز گل

No comments:

Post a Comment