اک بے وفا پہ جان کو وارے چلے گئے
بازی لگا کے عشق کی ہارے چلے گئے
طعنے وہی ہیں، طنز وہی، چشمگیں وہی
ہم سے تھے جو سلوک تمہارے چلے گئے
رعنائیوں کے ساتھ ہی دشواریاں بڑھیں
اب وہ تصورات کی رنگینیاں کہاں
گلزارِ بے خودی کے نظارے چلے گئے
لو اور بدگمان، بتِ بدگماں ہوا
جتنا بھی آرزوؤں کو مارے چلے گئے
ان کو نشاط جوشئ طوفاں کی کیا خبر
جو ڈوبنے کے ڈر سے کنارے چلے گئے
اثر لکھنوی
No comments:
Post a Comment