Monday 12 October 2015

اک بے وفا پہ جان کو وارے چلے گئے

اک بے وفا پہ جان کو وارے چلے گئے
بازی لگا کے عشق کی ہارے چلے گئے
طعنے وہی ہیں، طنز وہی، چشمگیں وہی
ہم سے تھے جو سلوک تمہارے چلے گئے
رعنائیوں کے ساتھ ہی دشواریاں بڑھیں
جتنا بھی زندگی کو سنوارے چلے گئے
اب وہ تصورات کی رنگینیاں کہاں
گلزارِ بے خودی کے نظارے چلے گئے
لو اور بدگمان، بتِ بدگماں ہوا
جتنا بھی آرزوؤں کو مارے چلے گئے
ان کو نشاط جوشئ طوفاں کی کیا خبر
جو ڈوبنے کے ڈر سے کنارے چلے گئے

اثر لکھنوی

No comments:

Post a Comment