Friday 9 October 2015

تبدیلی سے پہلے کا یہ موسم دیکھا بھالا ہے

تبدیلی سے پہلے کا یہ موسم دیکھا بھالا ہے
حبس علامت ہے اس کی، طوفان، جو آنے والا ہے
اپنے گِرد بچھا ہے ظلمت کی سازِش کا جال، مگر
ہاتھوں میں جب آ جائے تو یہ مکڑی کا جالا ہے
دولت اور طاقت کے نشے میں قدروں کی پامالی
ہم نے یہی منظر دیکھا ہے جب سے ہوش سنبھالا ہے
کون مجھے اب راہوں کی سختی کا خوف دلائے گا
پتھریلی راہوں کا ساتھی، میرے پاؤں کا چھالا ہے
منظر کی دھندلاہٹ میں ہوتی ہے اک سرگوشی سی
‘‘ایوانوں کی ہلچل کہتی ہے ’’کچھ ہونے والا ہے
محلوں کے باسی کیا جانیں خود داری کی شاہی کو
تخت کسی کی منزل ہو گا، میں نے تاج اچھالا ہے
شب کی اس ظلمت میں کتنے جگنو قید کرو گے تم
رات بہت لمبی ہے لیکن، اس کے بعد اجالا ہے

فیصل عظیم 

No comments:

Post a Comment