کاغذوں پر لکھ دیا ہر ایک لمحے کا عذاب
اپنے ماتھے کی لکیریں، اپنی آنکھوں کے سراب
ہر گزرتا پَل مجھے ڈستا ہے ناگن کی طرح
کوئی وحشت کی کہانی ہے کہ یادوں کی کتاب
مصلحت نے عشقِ سادہ کو معمہ کر دیا
میرے رہبر نے مِرا نشہ بڑھانے کے لیے
پھر پلائی ہے مجھے جی بھر کے لفظوں کی شراب
یاد کر لیں گے تِری قُربت کے ہم احسان بھی
پہلے ہو جائے ذرا فرقت کی شاموں کا حساب
کچھ نہیں ہو گا تمہاری بے سبب تکرار سے
کب تلک کہتے رہو گے احتساب و احتساب
کوئی مجھ کو بھی سِکھا دے آسماں چھُونے کا فن
سوچتا ہوں فرش پر کیسے اتاروں آفتاب
فیصل عظیم
No comments:
Post a Comment