کبھی قطرہ، کبھی دریا، کبھی غرقاب ہوتا ہوں
کبھی اپنے لیے بھی کس قدر نایاب ہوتا ہوں
میں صحرا ہوں مگر تُو تو سمندر ہو کے پیاسا ہے
میں اپنے ہی سرابوں سے بہت سیراب ہوتا ہوں
ابھی تو دستِ ساقی میں چھلکتا جام ہوں گویا
اگر میں ہاتھ سے چھوٹوں تو پھر زہراب ہوتا ہوں
جو رات آنکھوں میں کٹتی ہے غزل کہتے ہوئے اکثر
میں اس شب تجھ سے ملنے کو بہت بے تاب ہوتا ہوں
بھٹکتا پھر رہا ہوں میں تلاشِ یار میں کب سے
کبھی جلتا ہوا سورج، کبھی مہتاب ہوتا ہوں
کبھی اپنے لیے بھی کس قدر نایاب ہوتا ہوں
میں صحرا ہوں مگر تُو تو سمندر ہو کے پیاسا ہے
میں اپنے ہی سرابوں سے بہت سیراب ہوتا ہوں
ابھی تو دستِ ساقی میں چھلکتا جام ہوں گویا
اگر میں ہاتھ سے چھوٹوں تو پھر زہراب ہوتا ہوں
جو رات آنکھوں میں کٹتی ہے غزل کہتے ہوئے اکثر
میں اس شب تجھ سے ملنے کو بہت بے تاب ہوتا ہوں
بھٹکتا پھر رہا ہوں میں تلاشِ یار میں کب سے
کبھی جلتا ہوا سورج، کبھی مہتاب ہوتا ہوں
فیصل عظیم
No comments:
Post a Comment