Thursday, 8 October 2015

بیٹھے بٹھائے آج پھر کس کا خیال آ گیا

بیٹھے بٹھائے آج پھر کس کا خیال آ گیا
چہرے کا رنگ اڑ گیا، رنگِ ملال آ گیا
الجھن میں پڑ گیا ہوں میں دل کا کروں تو کیا کروں
شیشہ نہیں یہ کام کا، اس میں تو بال آ گیا
پورا نہ کر سکوں گا اب، تجھ سے کبھی مکالمہ
آنکھیں تھیں محوِ گفتگو، دل کا سوال آ گیا
کرنی ہے اب ترک جس جگہ، تیری تلاش و آرزو
صحرا میں اب مقام وہ میرے غزال آ گیا
روئی کی طرح شہر میں اڑنے لگی ہے یہ خبر
اس کو ہی بس پتہ نہیں، اس کا زوال آ گیا
میں نے تو اپنا آئینہ رکھا تھا اس کے روبرو
اتنی سی ایک بات تھی، اس کو جلال آ گیا

عبید صدیقی

No comments:

Post a Comment