Thursday, 8 October 2015

تو بھی فریادی ہوا تھا التجا میں نے بھی کی

تُو بھی فریادی ہوا تھا، التجا میں نے بھی کی
تُو نہ تھا مجرم اکیلا، ہاں خطا میں نے بھی کی
ظلم دونوں نے کیا تھا، دونوں تھے اس میں شریک
ابتداء گر تُو نے کی، تو انتہا میں نے بھی کی
صرف تُو نے ہی نہیں کی جستجوئے چارہ گر
درد جب حد سے بڑھا تو کچھ دوا میں نے بھی کی
کس نے کیا مانگا فلک سے اور کس کو کیا ملا
ہاتھ تُو نے بھی اٹھائے تھے، دعا میں نے بھی کی
میں تِرا حصہ نہ بن پایا، یہ اچھا ہی ہُوا
گو یہ خواہش اے ہجومِ دلرُبا! میں نے بھی کی
سبزۂ بے گانہ سے رشتہ مِرا کچھ کم نہیں
اس چمن کی آبیاری اے گھٹا! میں نے بھی کی

عبید صدیقی

No comments:

Post a Comment