وعدہ جو تھا نباہ کا تم نے وفا نہیں کیا
ہم نے تو آج تک تمہیں دل سے جدا نہیں کیا
ہم ہی وہ کم نصیب تھے مانگے ملی نہ موت بھی
آپ کا کیا قصور ہے آپ نے کیا نہیں کیا
موم ہوئے پگھل گئے، سنگ بنے چٹخ گئے
دشتِ طلب میں ہر صدا گونج بنی بکھر گئی
کس کو سلگتی ریت نے آبلہ پا نہیں کیا
وہ تو یہ کہیے سخت جاں ہم تھے کہ وار سہہ گئے
تم نے وگرنہ ایک بھی تیر خطا نہیں کیا
آج وفا کا واسطہ دیتا ہے وہ ستم ظریف
جس نے غرورِ حسن میں خوفِ خدا نہیں کیا
ویسے تو سب بزعمِ خویش سچے ہیں لین دَین کے
مٹی کا جس پہ قرض تھا اس نے ادا نہیں کیا
مرتضیٰ برلاس
No comments:
Post a Comment