Tuesday 19 December 2017

وعدہ جو تھا نباہ کا تم نے وفا نہیں کیا

وعدہ جو تھا نباہ کا تم نے وفا نہیں کیا 
ہم نے تو آج تک تمہیں دل سے جدا نہیں کیا 
ہم ہی وہ کم نصیب تھے مانگے ملی نہ موت بھی 
آپ کا کیا قصور ہے آپ نے کیا نہیں کیا 
موم ہوئے پگھل گئے، سنگ بنے چٹخ گئے 
پھر بھی زباں سے آج تک ہم نے گلہ نہیں کیا 
دشتِ طلب میں ہر صدا گونج بنی بکھر گئی 
کس کو سلگتی ریت نے آبلہ پا نہیں کیا 
وہ تو یہ کہیے سخت جاں ہم تھے کہ وار سہہ گئے 
تم نے وگرنہ ایک بھی تیر خطا نہیں کیا 
آج وفا کا واسطہ دیتا ہے وہ ستم ظریف 
جس نے غرورِ حسن میں خوفِ خدا نہیں کیا 
ویسے تو سب بزعمِ خویش سچے ہیں لین دَین کے 
مٹی کا جس پہ قرض تھا اس نے ادا نہیں کیا

مرتضیٰ برلاس

No comments:

Post a Comment