دنیا تیرے مطلب کی ہے، تُو دنیا کے مطلب کا
اور دونوں کے پاس نہیں ہے کچھ بھی میرے مطلب کا
اصلی بات پہ کیا پھل آتا ہاہا کار کے موسم میں
سب نے باغ لگا رکھا ہے اپنے اپنے مطلب کا
اپنی ہی آواز پہ لٹو ہو کر ابنِ آدم نے
رشتوں کی تعمیر میں کوئی در تو رکھنا پڑتا ہے
چھوٹی چھوٹی امیدوں کا، ہلکے پھلکے مطلب کا
بات برائے بات کا خالص لطف اٹھائیں آج ذرا
تھوڑی دیر بھلا دو جھگڑا الٹے سیدھے مطلب کا
دونوں پر بے لوث محبت کی اک چھتری کافی تھی
تم نے سر پر کیا تانا ہے دوہرے تہرے مطلب کا
میرے دل کو گیت بنا کر گاؤ، لیکن یاد رہے
اس پر کوئی حرف نہ آئے ایسے ویسے مطلب کا
چھوٹا سا اک جملہ سن کر دن اچھا ہو جاتا ہے
لیکن تیرے لب سے نکلے اور ہو اچھے مطلب کا
ایک انگوٹھی گھڑ لو بی بی ، روز صدائیں دیتا ہے
دور کہیں اک سیپی اندر موتی گہرے مطلب کا
حمیدہ شاہین
No comments:
Post a Comment