Monday 11 December 2017

شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے

شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے 
ہم لوگ روشنی کے طلبگار کب ہوئے 
خوشبو کی گھات میں ہیں شکاری ہواؤں کے 
جھونکے مگر کسی سے گرفتار کب ہوئے 
تعبیر کی رتوں نے بدن زرد کر دئیے 
پھر بھی یہ لوگ خواب سے بیدار کب ہوئے 
تالے لگا لئے ہیں خود اپنی زباں پر 
کیا بات ہے تم اتنے سمجھدار کب ہوئے 
یہ عہد اپنی روح میں عہد فراق ہے 
ہم مطلع سخن پہ نمودار کب ہوئے 
خلعت وصول کرتے ہوئے سر اٹھا لیا 
رسوا نجیبؔ ہم سر دربار کب ہوئے

نجیب احمد

No comments:

Post a Comment