شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے
ہم لوگ روشنی کے طلبگار کب ہوئے
خوشبو کی گھات میں ہیں شکاری ہواؤں کے
جھونکے مگر کسی سے گرفتار کب ہوئے
تعبیر کی رتوں نے بدن زرد کر دئیے
تالے لگا لئے ہیں خود اپنی زباں پر
کیا بات ہے تم اتنے سمجھدار کب ہوئے
یہ عہد اپنی روح میں عہد فراق ہے
ہم مطلع سخن پہ نمودار کب ہوئے
خلعت وصول کرتے ہوئے سر اٹھا لیا
رسوا نجیبؔ ہم سر دربار کب ہوئے
نجیب احمد
No comments:
Post a Comment