شبِ غم یاد ان کی آ رہی ہے
چراغِ دل کی لو تھرا رہی ہے
بیانِ دوست ناصح کی زباں سے
طبیعت اور مچلی جا رہی ہے
کہاں نقشِ کفِ پا ڈھونڈتے ہو
بڑے دلکش ہیں دنیا کے خم و پیچ
نظر میں زلف سی لہرا رہی ہے
ہوئی مدت کہ دل آتش زدہ تھا
فغاں سے آج تک آنچ آ رہی ہے
شبِ وعدہ خیالوں کے افق پر
گریزاں سی ضیا تھرا رہی ہے
محبت کو کہاں تابِ نظارہ
جوانی آپ ہی شرما رہی ہے
سکوتِ شام کی پہنائیوں سے
صدا اس اجنبی کی آ رہی ہے
ظہیر کاشمیری
No comments:
Post a Comment