جہاں کے رخ پہ اگر کھڑکیاں بناتے ہم
تو صرف سانس کی آسانیاں بناتے ہم
پہن پہن کے دکھانے کو ڈھیر لگ جاتا
یہ شور کاٹ کے تنہائیاں بناتے ہم
کوئی تو خواب کے اس پار بھی پہنچ جاتا
ہمارے شہر میں ہوتی نہ رسمِ سنگ زنی
تو کینوس پہ ہری بیریاں بناتے ہم
سڑک بناتے ہوئے تم کچل نہ جاتے ہمیں
محبتوں سے بھری گاڑیاں بناتے ہم
تبھی گل و ثمر و سایہ کی سند ملتی
زمیں کو پڑھتے ہوئے کیاریاں بناتے ہم
دلوں میں تازہ ہوا کی چلت پھرت رہتی
تعصّبات میں رہداریاں بناتے ہم
جہان بھر کو رہائش کی آرزو ہوتی
بہ طرزِ وصل تِری دوریاں بناتے ہم
ننانوے پہ جمے سانپ سے نمٹ لیتے
تِرے لیے تو فقط سیڑھیاں بناتے ہم
حمیدہ شاہین
No comments:
Post a Comment