Friday 22 December 2017

جہاں کے رخ پہ اگر کھڑکیاں بناتے ہم

جہاں کے رخ پہ اگر کھڑکیاں بناتے ہم
تو صرف سانس کی آسانیاں بناتے ہم
پہن پہن کے دکھانے کو ڈھیر لگ جاتا
یہ شور کاٹ کے تنہائیاں بناتے ہم
کوئی تو خواب کے اس پار بھی پہنچ جاتا
ذرا سا جاگتے، اور کشتیاں بناتے ہم
ہمارے شہر میں ہوتی نہ رسمِ سنگ زنی
تو کینوس پہ ہری بیریاں بناتے ہم
سڑک بناتے ہوئے تم کچل نہ جاتے ہمیں
محبتوں سے بھری گاڑیاں بناتے ہم
تبھی گل و ثمر و سایہ کی سند ملتی
زمیں کو پڑھتے ہوئے کیاریاں بناتے ہم
دلوں میں تازہ ہوا کی چلت پھرت رہتی
تعصّبات میں رہداریاں بناتے ہم
جہان بھر کو رہائش کی آرزو ہوتی
بہ طرزِ وصل تِری دوریاں بناتے ہم
ننانوے پہ جمے سانپ سے نمٹ لیتے 
تِرے لیے تو فقط سیڑھیاں بناتے ہم 

حمیدہ شاہین

No comments:

Post a Comment