Wednesday 20 December 2017

کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے

کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے 
سلسلہ وقت کا تلوار سے جا ملتا ہے 
میں جہاں بھی ہوں مگر شہر میں دن ڈھلتے ہی 
میرا سایہ تِری دیوار سے جا ملتا ہے 
تیری آواز کہیں روشنی بن جاتی ہے 
تیرا لہجہ کہیں مہکار سے جا ملتا ہے 
چودھویں رات تری زلف میں ڈھل جاتی ہے 
چڑھتا سورج تِرے رخسار سے جا ملتا ہے 
گرد پھر وسعتِ صحرا میں سمٹ جاتی ہے 
راستہ کوچہ و بازار سے جا ملتا ہے 
رامؔ ہر چند کئی لوگ بچھڑ جاتے ہیں 
قافلہ قافلہ سالار سے جا ملتا ہے 

رام ریاض

ریاض احمد

No comments:

Post a Comment