Friday 29 December 2017

دھیمے رنگوں کی دھوپ جیسی ہے

دھیمے رنگوں کی، دھوپ جیسی ہے
وہ ہنسی، کچی دھوپ جیسی ہے
رنگ آنکھوں کے ہو گئے گہرے
شام بھی، پکی دھوپ جیسی ہے
میں فقط، عکسِ آبِ آئینہ ہوں
یعنی، چمکیلی دھوپ جیسی ہے
وہ ہے شفاف روشنی جیسا
شخصیت اس کی دھوپ جیسی ہے
چُپ کے معنی بدل دیئے میں نے
میری خاموشی دھوپ جیسی ہے
وہ محبت کے رنگ بانٹے گی
خود جو گہنائی دھوپ جیسی ہے
ایسی حدّت ہے، اس کے لہجے میں
سب تپش جلتی دھوپ جیسی ہے
اب اداسی بھری ہے آنکھوں میں
اب نظر ڈھلتی دھوپ جیسی ہے
میری سانسوں کو کاٹ ڈالے گی
یہ اداسی بھی دھوپ جیسی ہے

ناہید ورک

No comments:

Post a Comment