تُو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر
خوشبو ہے گر تو دل میں سمٹ کر کلام کر
میں اجنبی نہیں ہوں مجھے روند کر نہ جا
نظریں ملا کے دیکھ، پلٹ کر کلام کر
بالائے بام آنے کا گر حوصلہ نہیں
قوس قزح کے رنگ میسر نہیں تو پھر
دریا کی موج موج میں بٹ کر کلام کر
جنت میں یا تو مجھ کو پرانا مقام دے
یا آ مِری زمیں میں پلٹ کر کلام کر
انور سدیدؔ عام سا بندہ ہے اسکے ساتھ
مٹی پہ بیٹھ، گرد میں اٹ کر کلام کر
انور سدید
No comments:
Post a Comment