Monday 25 December 2017

تو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر

تُو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر 
خوشبو ہے گر تو دل میں سمٹ کر کلام کر 
میں اجنبی نہیں ہوں مجھے روند کر نہ جا 
نظریں ملا کے دیکھ، پلٹ کر کلام کر 
بالائے بام آنے کا گر حوصلہ نہیں 
پلکوں کی چلمنوں میں سمٹ کر کلام کر 
قوس قزح کے رنگ میسر نہیں تو پھر 
دریا کی موج موج میں بٹ کر کلام کر 
جنت میں یا تو مجھ کو پرانا مقام دے 
یا آ مِری زمیں میں پلٹ کر کلام کر 
انور سدیدؔ عام سا بندہ ہے اسکے ساتھ 
مٹی پہ بیٹھ، گرد میں اٹ کر کلام کر

انور سدید

No comments:

Post a Comment