Saturday 23 December 2017

یم بہ یم پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا یہاں

یم بہ یم پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا یہاں 
اک سرابِ تشنگی ہے موجۂ صہبا یہاں 
روشنی کے زاویوں پر منحصر ہے زندگی 
آپ کے بس میں نہیں ہے آپ کا سایہ یہاں 
آتے آتے آنکھ تک دل کا لہو پانی ہوا 
کس قدر ارزاں ہے اپنے خون کا سودا یہاں 
تیرے میرے درمیاں حائل رہی دیوارِ حرف 
رکھ لیا اک بات نے ہر بات کا پردا یہاں 
دیکھیے تو یہ جہاں ہے اک جہان آب و گل 
سوچئے تو ذرے ذرے میں ہے اک دنیا یہاں

حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment