سانسوں میں مل گئی تِری سانسوں کی باس تھی
بہکی ہوئی نظر تھی کہ پھر بھی اداس تھی
بے شک شکستِ دل پہ وہ مبہوت رہ گیا
لیکن شکستِ دل میں بھی زندہ اک آس تھی
گر تو مِرے حواس پہ چھایا ہوا نہ تھا
بارش سے آسمان کا چہرہ تو دھل گیا
دھرتی کے ہونٹ پر ابھی صدیوں کی پیاس تھی
کونپل نے آنکھ کھولی تو حیران رہ گئی
حد نظر تلک یہ زمیں بے لباس تھی
ہونٹوں پہ اک گلاب تھا تازہ کھلا ہوا
آنکھوں کے آئینوں میں تمنا اداس تھی
انورؔ سدید سوچتا رہتا ہوں ان دنوں
وہ کون تھا کہ جس کیلئے دل میں پیاس تھی
انور سدید
No comments:
Post a Comment