کچھ کٹی غم میں کچھ خوشی سے بھی
ہم نہ اکتائے زندگی سے بھی
جس کا منشا فروغِ خوشبو تھا
باغ مہکا نہ اس کلی سے بھی
اور کیا چاہیے خدا جانے
کچھ تو ماحول سازگار نہیں
تنگ ہوں کچھ تِری کجی سے بھی
اس خزانہ مثال شخص کے بعد
دل نہ بہلا مِرا کسی سے بھی
نام دیجو بدل تبھی میرا
میں جو گزرا تِری گلی سے بھی
تھا عجب دل کا بند فولادی
بہہ گیا سیلِ عاشقی سے بھی
نہ بہت گرم مثلِ سِبّی ہے
اور ٹھنڈا نہیں مِری سے بھی
اب ہے کھل کر گلابِ دل اے دوست
بے نمک دستِ شبنمی سے بھی
مجھ پہ طاری ہے ایسی کیفیت
جو ہے پُر لطف دلبری سے بھی
بے سبب کل جو کھل اٹھا بابر
غمزدہ ہیں سب اس ہنسی سے بھی
بابر رحمٰن شاہ
No comments:
Post a Comment