کیا رنج کہ یوسف کا خریدار نہیں ہے
یہ شہر کوئی مصر کا بازار نہیں ہے
کیوں میری گرفتاری پہ ہنگامہ ہے ہر سو
وہ کون ہے جو تیرا گرفتار نہیں ہے
کس کس پہ عنایت نہ ہوئی تیری نظر کی
بس ایک مری سمت گہر بار نہیں ہے
کیوں جرأتِ اظہار پہ حیران ہو میری
ابرو ہیں تمہارے کوئی تلوار نہیں ہے
سایہ ہے مرے سر پہ قمر دھوپ شجر کا
بیٹھا ہوں جہاں سایۂ دیوار نہیں ہے
قمر صدیقی
No comments:
Post a Comment