Tuesday 19 December 2017

میری شام غم میری شام غم میرے پاس آ

تنہائی

میری شام غم میری شام غم 
میرے پاس آ مجھے روز و شب کی فیصل پر 
میری پور پور میں درد بن کے اتر گیا 
جو کہیں کہیں پہ پڑاؤ تھا میرا آب اشک کی جھیل پر 
تیرے جیسے ہی کسی خیر خواہ سے کم نہ تھا 
کبھی راکھ تھا کسی مردہ دل سے وصال کی 
تو کبھی الاؤ تھا بے قرارئ ہجر کا 
کسی شہر صبر کی سیج پر 
جو سکوت تھا میرا عمر بھر 
کسی بین سے کسی سرد آہ سے کم نہ تھا 
کبھی خار دیکھے ہیں تم نے نیند کے بستروں پہ اگے ہوئے 
میری آرزو تھی تو آرزو
میرا خواب کسی قتل گاہ سے کم نہ تھا 
میری انگلیاں بھی ہیں ریشہ ریشہ جمود سے 
میری خواہشیں میرا دشت دل
میری چاہتیں میری چشم نم، میری چشم نم 
میری شام نم میری شام نم 
میرے پاس آ مجھے راس آ
میں نجانے کیسی اذیتوں کی رفاقتوں میں الجھ گیا 
میں الجھ گیا کسی عہد حالت زار سے 
کسی پیار سے کوئی سچ نکل کے نہیں ملا
وہی زرد رت وہی زرد رت 
وہی برف سی میرے ہم قدم 
میری شام نم میری شام نم 
میرے پاس آ مجھے راس آ

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment