مجھے تو رو رہے پھولوں کو چپ کرانا تھا
نہیں تھے تم تو مجھے تتلیاں بنانی پڑیں
پہاڑیوں کو ملانا تھا نیلی بستی سے
کئی ہزار ہمیں سیڑهیاں بنانی پڑیں
مِرے بزرگوں نے سب کشتیاں جلا دی تھیں
گھروں کو بھرنا تھا قدرت نے رنگ و خوشبو سے
کہیں پہ پھول، کہیں بیٹیاں بنانی پڑیں
پرانے گاؤں کے گھر میں گھٹن کہاں تھی عطا
نئے گھروں میں بڑی کھڑکیاں بنانی پڑیں
احمد عطاءاللہ
No comments:
Post a Comment