Sunday, 3 December 2017

نہیں تھے تم تو مجھے تتلیاں بنانی پڑیں

مجھے تو رو رہے پھولوں کو چپ کرانا تھا
نہیں تھے تم تو مجھے تتلیاں بنانی پڑیں
پہاڑیوں کو ملانا تھا نیلی بستی سے
کئی ہزار ہمیں سیڑهیاں بنانی پڑیں
مِرے بزرگوں نے سب کشتیاں جلا دی تھیں
مجھے دوبارہ نئی کشتیاں بنانی پڑیں
گھروں کو بھرنا تھا قدرت نے رنگ و خوشبو سے
کہیں پہ پھول، کہیں بیٹیاں بنانی پڑیں
پرانے گاؤں کے گھر میں گھٹن کہاں تھی عطا
نئے گھروں میں بڑی کھڑکیاں بنانی پڑیں

احمد عطاءاللہ

No comments:

Post a Comment