Friday 22 December 2017

دوستداران وفا گم ہو گئے

دوستدارانِ وفا گم ہو گئے
وائے اربابِ وفا گم ہو گئے
راستے پر پیچ ، راہی دلفگار
رہبروں کے نقشِ پا گم ہو گئے
رات کے تاریک سناٹوں کے ساتھ
مطربانِ خوشنوا گم ہو گئے
ضربتِ امواج تیرا شکریہ
ناؤ ڈوبی ناخدا گم ہو گئے
اول اول منزلیں اوجھل ہوئیں
آخر آخر رہنما گم ہو گئے
اب نہ نکہت ہے نہ شبنم ہے نہ رنگ
ہم صفیرانِ صبا گم ہو گئے
شیخ صاحب ہمرہِ پیرِ مغاں
میکدے میں کیا ہوا، گم ہو گئے
پڑ گئی مدھم حُدی خوانوں کی لے
شہ سوارانِ وفا گم ہو گئے
خندۂ مہرِ درخشاں کی قسم
اس سحر کے آشنا گم ہو گئے
اب کہاں شعر و سخن کی رونقیں
شاعرِ شعلہ نوا گم ہو گئے

آغا شورش کاشمیری

No comments:

Post a Comment