Wednesday 20 December 2017

تمام تر اسی خانہ خراب جیسا ہے

تمام تر اسی خانہ خراب جیسا ہے 
مِرے لہو کا نشہ بھی شراب جیسا ہے 
نہا رہا ہوں میں اسکے بدن کی کرنوں میں 
وہ آدمی ہے، مگر ماہتاب جیسا ہے 
کروں تلاش جواہر تو ریت ہاتھ آئے 
سمندروں کا چلن بھی سراب جیسا ہے 
جلا گیا مجھے اپنے بدن کی ٹھنڈک سے 
وہ جس کا رنگ دہکتے گلاب جیسا ہے 
قتیلؔ کام و دہن اپنا ساتھ دیں کہ نہ دیں 
وفا کا ذائقہ لیکن شباب جیسا ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment