Tuesday, 19 December 2017

ایک بے نام سی دیوار ہے باہر میرے

 ایک بے نام سی دیوار ہے باہر میرے 

کون جانے جو نیا شہر ہے اندر میرے 

فن کے پیمانے سبک حرف کے کوزے نازک 

کیسے سمجھاؤں کہ کچھ دکھ ہیں سمندر میرے 

کوئی موسم ہو مِری چھپ مِرا رنگ اپنا ہے 

میری یہ وضع کہ بے وضع ہیں منظر میرے 

میرے ہی رخ کا عرق جوہر گل ہائے ہنر 

زرگری کام مِرا زخم مقدر میرے 

کیسے میں پاؤں کی گردش کو غلط ٹھہراؤں 

کہ ہے گردش ہی کا احسان لہو پر میرے 

اب کے بھی چشم نمو جاگی تو کیا فرق پڑا 

وہی صورت کہ ثمر اوروں کے پتھر میرے 

تجربہ کر لے مِرے شہر کی سرحد پہ غنیم 

لوح میدان مِرا حرف ہیں لشکر میرے 

آنے والوں سے کہو یوں نہ کریں شور بلند 

کئی گھر اور بھی ہیں گھر کے برابر میرے 

بول ہیں رس نہ سہی لمحے میں نرمی نہ سہی 

کچھ تو ہے بات جو شہرے ہیں یہ محشر میرے


محشر بدایونی

No comments:

Post a Comment