بنجارہ
میں بنجارہ
وقت کے کتنے شہروں سے گزرا ہوں
لیکن
وقت کے اس اک شہر سے جاتے جاتے مڑ کے دیکھ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں
تم نے مجھ کو چھوڑا تھا جس شہر میں آ کر
وقت کا اب وہ شہر بھی مجھ سے چھوٹ رہا ہے
مجھ کو بِدا کرنے آئے ہیں
اس نگری کے سارے باسی
وہ سارے دن
جِن کے کندھے پر سوتی ہے
اب بھی تمہاری زلف کی خوشبو
سارے لمحے
جِن کے ماتھے پر ہے روشن
اب بھی تمہارے لمس کا ٹیکا
نم آنکھوں سے
گم سم مجھ کو دیکھ رہے ہیں
مجھ کو ان کے دکھ کا پتا ہے
ان کو میرے غم کی خبر ہے
لیکن مجھ کو حکمِ سفر ہے
جانا ہو گا
وقت کے اگلے شہر مجھے اب جانا ہو گا
وقت کے اگلے شہر کے سارے باشندے
سب دن سب راتیں
جو تم سے ناواقف ہوں گے
وہ کب میری بات سنیں گے
مجھ سے کہیں گے
جاؤ اپنی راہ لو راہی
ہم کو کتنے کام پڑے ہیں
جو بیتی سو بِیت گئی
اب وہ باتیں کیوں دہراتے ہو
کندھے پر یہ جھولی رکھے
کیوں پھِرتے ہو کیا پاتے ہو
میں بے چارہ
اک بنجارہ
جاوید اختر
No comments:
Post a Comment