Monday 11 December 2017

اک رنج عمر دے کے چلا ہے کدھر مجھے

اک رنج عمر دے کے چلا ہے کدھر مجھے 
گلیوں میں رول دیں نہ مرے بال و پر مجھے 
دل پربتوں کے پار نہ چل دے ہوا کے ساتھ 
بادل بنا نہ دے مری خوئے سفر مجھے 
میں نے جنہیں چھوا انہیں شہکار کر دیا 
اے کاش چھو سکے مرا دست ہنر مجھے 
تم سے بچھڑ کے عمر بھر اک سوچ ہی رہی 
کیا ہو تم ایک روز بھلا دو اگر مجھے 
بے برگ و بار کر گئی آندھی مرا بدن 
خوش تھا یہ سوچ کر کہ لگے ہیں ثمر مجھے 
اے دشت دار دیکھ چمن زار کی طرف 
پگ پگ پکارتے ہیں مرے ہمسفر مجھے 
آزاد کر نجیبؔ گرفتار رمز کو 
رنگوں میں کھول اے مرے رنگ ہنر مجھے

نجیب احمد

No comments:

Post a Comment