ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں
یاد آنے کی طرح یاد وہ آیا بھی نہیں
جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب
سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں
وجہ رسوائی احساس ہوا ہے کیا کیا
اے محبت یہ ستم کیا کہ جدا ہوں خود سے
کوئی ایسا مِرے نزدیک تو آیا بھی نہیں
یا ہمیں زلف کے سائے ہی میں نیند آتی تھی
یا میسر کسی دیوار کا سایا بھی نہیں
بارہا دل تِری قربت سے دھڑک اٹھا ہے
گو ابھی وقت محبت میں وہ آیا بھی نہیں
آپ اس شخص کو کیا کہیے کہ جس نے امید
غم دیا غم کو دل آزار بنایا بھی نہیں
امید فاضلی
No comments:
Post a Comment