Saturday, 2 December 2017

ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں

ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں 
یاد آنے کی طرح یاد وہ آیا بھی نہیں 
جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب 
سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں 
وجہ رسوائی احساس ہوا ہے کیا کیا 
ہائے وہ لفظ جو لب تک مِرے آیا بھی نہیں 
اے محبت یہ ستم کیا کہ جدا ہوں خود سے 
کوئی ایسا مِرے نزدیک تو آیا بھی نہیں 
یا ہمیں زلف کے سائے ہی میں نیند آتی تھی 
یا میسر کسی دیوار کا سایا بھی نہیں 
بارہا دل تِری قربت سے دھڑک اٹھا ہے 
گو ابھی وقت محبت میں وہ آیا بھی نہیں 
آپ اس شخص کو کیا کہیے کہ جس نے امید
غم دیا غم کو دل آزار بنایا بھی نہیں

امید فاضلی

No comments:

Post a Comment