Friday 22 December 2017

ہوائے شام نہ جانے کہاں سے آتی ہے

ہوائے شام نہ جانے کہاں سے آتی ہے 
وہاں گلاب بہت ہیں جہاں سے آتی ہے 
یہ کس کا چہرہ دمکتا ہے میری آنکھوں میں 
یہ کس کی یاد مجھے کہکشاں سے آتی ہے 
اسی فلک سے اترتا ہے یہ اندھیرا بھی 
یہ روشنی بھی اسی آسماں سے آتی ہے 
یہ کس نے خاک اڑا دی ہے لالہ زاروں میں 
زمیں پہ ایسی تباہی کہاں سے آتی ہے 
صدائے گریہ جسے ایک میں ہی سنتا ہوں 
ہجومِ شہر! تِرے درمیاں سے آتی ہے

عبید صدیقی

No comments:

Post a Comment