Tuesday 5 December 2017

سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں

سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں 
وہ نہ جانے کدھر سے گزرے ہیں 
موج آواز پائے یار کے ساتھ 
نغمے دیوار و در سے گزرے ہیں 
آج آیا ہے اپنا دھیان ہمیں 
آج دل کے نگر سے گزرے ہیں 
گھر کے گوشے میں تھے کہیں پنہاں 
جتنے سیلاب گھر سے گزرے ہیں 
زلف کے خم ہوں یا جہان کے غم 
مر مٹے ہم جدھر سے گزرے ہیں 
صدف تہ نشیں بھی کانپ گیا 
کیسے طوفان سر سے گزرے ہیں 
باغ شاداب موج گل ہی نہیں 
سیل خوں بھی ادھر سے گزرے ہیں 
جب چڑھی ہے کماں کہیں عابدؔ 
تیرے میرے جگر سے گزرے ہیں

عابد علی عابد

No comments:

Post a Comment