رنگ آنسوؤں کا میرے جس دن سے شہابی ہے
صبح ان کی بسنتی ہے، شام ان کی گلابی ہے
مۓ خانے سے باہر تک جھنکار چلی آیٔی
یہ کس کا سبو ٹوٹا، یہ کون شرابی ہے
بے کیفئ صہبا میں ساقی کی خطا نکلی
کیفیتِ غم پوچھو ہم اہلِ طبیعت سے
مے ہو گی اسی گھر میں جس گھر میں گلابی ہے
آسان ہے اب کتنی رسم و رہِ مۓ خانہ
دو گھونٹ بھی پی لی ہے جس نے وہ شرابی ہے
ان کے متعلق جو باتیں ہیں مِرے دل میں
چپ رہئے تو بیجا ہے، کہئے تو خرابی ہے
کلیم عاجز
No comments:
Post a Comment