Monday 18 December 2017

یوں اٹھے درد کے شعلے کہ بجھائے نہ گئے

یوں اٹھے درد کے شعلے کہ بجھائے نہ گئے
ہم چراغوں کی طرح روز جلائے نہ گئے
وہ بھی لاشوں کو کناروں پہ اگل آیا ہے
ظلم دریا سے بھی انساں کے چھپائے نہ گئے
یہ تو جنت کا نمونہ ہیں، انہیں کیا کہیے
گھر کے وہ گوشے جو مہماں کو دکھائے نہ گئے
جس جگہ چھاؤں تھی، اب دھوپ وہاں رہتی ہے
ہم سے کاٹے تو گئے پیڑ، اگائے نہ گئے
دہر میں آج بھی موجود ہیں عظمت والے
سارے پتے کبھی آندھی سے گرائے نہ گئے
ہائے وہ پھول جو صحراؤں میں کھلتے ہوں گے
ہائے وہ گیت کسی کو جو سنائے نہ گئے

خاقان خاور

No comments:

Post a Comment