یوں اٹھے درد کے شعلے کہ بجھائے نہ گئے
ہم چراغوں کی طرح روز جلائے نہ گئے
وہ بھی لاشوں کو کناروں پہ اگل آیا ہے
ظلم دریا سے بھی انساں کے چھپائے نہ گئے
یہ تو جنت کا نمونہ ہیں، انہیں کیا کہیے
جس جگہ چھاؤں تھی، اب دھوپ وہاں رہتی ہے
ہم سے کاٹے تو گئے پیڑ، اگائے نہ گئے
دہر میں آج بھی موجود ہیں عظمت والے
سارے پتے کبھی آندھی سے گرائے نہ گئے
ہائے وہ پھول جو صحراؤں میں کھلتے ہوں گے
ہائے وہ گیت کسی کو جو سنائے نہ گئے
خاقان خاور
No comments:
Post a Comment