Friday 22 December 2017

آنکھوں میں اک خواب ہے اس کو یہیں سجاؤں گا

آنکھوں میں اک خواب ہے اس کو یہیں سجاؤں گا 
تھوڑی زمیں ملی تو اک دن باغ لگاؤں گا 
شہر جو تم یہ دیکھ رہے ہو اس میں کئی ہیں شہر 
میرے ساتھ ذرا نکلو تو سیر کراؤں گا 
میرے لیے یہ دیوار و در جیسے ہیں اچھے ہیں 
اس گھر کی آرائش کر کے کسے دکھاؤں گا 
ساری دنیا دیکھ رہی ہے خوشیوں کے انبار 
اتنی دولت مت دے مجھ کو، کہاں چھپاؤں گا 
یہ جو اندھیرا پھیل رہا ہے جسم و جاں کے بیچ 
اور گھنیرا ہو جائے تو دِیا 🪔 جلاؤں گا 

عبید صدیقی

No comments:

Post a Comment