طبیعت کو قابو میں لانا پڑے ہے
اٹھے ہے کہاں غم اٹھانا پڑے ہے
خبر ہے کہ ہیں دشمنِ جان و دل وہ
مگر دل انہیں سے لگانا پڑے ہے
عجب چیز ہے کاروبارِ محبت
نہ آ درد مندوں کی محفل میں پیارے
یہا ں عمر بھر دل جلانا پڑے ہے
ہمیں جب لگے ہے جھڑی آنسوؤں کی
وہی فصلِ گل کا زمانہ پڑے ہے
وہ پوچھے ہیں جب خیریت سے ہو عاجز
جگر تھام کر، مسکرانا پڑے ہے
کلیم عاجز
No comments:
Post a Comment