Monday 18 December 2017

طبیعت کو قابو میں لانا پڑے ہے

طبیعت کو قابو میں لانا پڑے ہے 
اٹھے ہے کہاں غم اٹھانا پڑے ہے
خبر ہے کہ ہیں دشمنِ جان و دل وہ 
مگر دل انہیں سے لگانا پڑے ہے
عجب چیز ہے کاروبارِ محبت 
کمانا پڑے ہے، لٹانا پڑے ہے
نہ آ درد مندوں کی محفل میں پیارے 
یہا ں عمر بھر دل جلانا پڑے ہے
ہمیں جب لگے ہے جھڑی آنسوؤں کی 
وہی فصلِ گل کا زمانہ پڑے ہے
وہ پوچھے ہیں جب خیریت سے ہو عاجز 
جگر تھام کر، مسکرانا پڑے ہے

کلیم عاجز

No comments:

Post a Comment