Wednesday, 20 December 2017

اس دور میں توفیق انا دی گئی مجھ کو

اس دور میں توفیقِ انا دی گئی مجھ کو 
کس جرم کی آخر یہ سزا دی گئی مجھ کو 
میں نے جو کیا فصلِ بہاراں کا تقاضا 
اک پھول کی تصویر دکھا دی گئی مجھ کو 
یہ کون مِرے نام کو دہرا سا رہا ہے 
شاید کسی گنبد میں صدا دی گئی مجھ کو 
وہ ان کا ملانا مجھے اک صاحبِ زر سے 
اوقات مِری یاد دلا دی گئی مجھ کو 
پہلے تو نوازا گیا میں خلعتِ غم سے 
پھر شہریتِ ملکِ وفا دی گئی مجھ کو 
حیرت ہے کہ اس بار بزرگوں کی طرف سے 
تکمیلِ محبت کی دعا دی گئی مجھ کو 
کچھ نامہ لکھے ہی تھے ابھی میرے قلم نے 
کاغذ کی طرح آگ لگا دی گئی مجھ کو 
گم ہو گیا مستی میں تڑپنے کا مزہ بھی 
کیا چیز قتیلؔ آج پلا دی گئی مجھ کو 

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment