اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی
صحرا نصیب کے لیے چھاؤں گھنی رہی
وہ نقش ہوں جو بن کے بھی اب تک نہ بن سکا
وہ بات ہوں جو کہہ کے بھی نا گفتنی رہی
پتھر کا بت سمجھ کہ یہ کس شے کو چھو لیا
اس جانِ گل کو دیکھتے کیسے کہ آج تک
اک رنگ و بو کی سامنے چادر تنی رہی
وہ دھند تھی کہ کچھ بھی دکھائی نہ دے سکا
وہ حبس تھا کہ کیفیتِ جانکنی رہی
مرتضیٰ برلاس
No comments:
Post a Comment