Tuesday 19 December 2017

اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی

اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی 
صحرا نصیب کے لیے چھاؤں گھنی رہی 
وہ نقش ہوں جو بن کے بھی اب تک نہ بن سکا 
وہ بات ہوں جو کہہ کے بھی نا گفتنی رہی 
پتھر کا بت سمجھ کہ یہ کس شے کو چھو لیا 
برسوں تمام جسم میں اک سنسنی رہی 
اس جانِ گل کو دیکھتے کیسے کہ آج تک 
اک رنگ و بو کی سامنے چادر تنی رہی 
وہ دھند تھی کہ کچھ بھی دکھائی نہ دے سکا 
وہ حبس تھا کہ کیفیتِ جانکنی رہی

مرتضیٰ برلاس

No comments:

Post a Comment