قلبِ پروانگی میں ڈھل ڈھل کر
آگ میں راکھ ہو گیا جل کر
اشک کیچڑ بچھا چکے آگے
عاشقوں کی ڈگر نہ دلدل کر
کیا نکالا نچوڑ دیکھیں تو
عشق ماہی مزاج رکھتا ہے
یا سمندر کہ آگ میں پل کر
مانجھ کر چشم کو کروں میں وا
تجھ کو دیکھوں نگاہ مل مل کر
آرزو ہے کہ یہ تِری مچھلی
دے مِری جستجو مجھے تل کر
کیا عمارت کھڑی ہوئی مجھ سے
میرؔ صاحب کے نقش پر چل کر
بابر رحمٰن شاہ
No comments:
Post a Comment