Monday 11 December 2017

کبھی ان کے ملن کی آشا نے اک جوت جگا دی تھی من میں

کبھی ان کے ملن کی آشا نے اک جوت جگا دی تھی من میں
اب من کا اجالا سنولایا، پھر شام ہے من کے آنگن میں
جو گھلتا ہے آنسو ڈھلتے ہیں، ہر نِیر میں دِیپ سے جلتے ہیں
اب بِرہا سے جی کی آگ بجھے، یہ تو اور بھی بھڑکے ساون میں
چلو انشا کے پاس چلیں بیٹھیں سنیں گیت منوہر پریم بھرے
جنہیں سن لیں تو من کو مسوس مریں سبھی گوپیاں گوکل کے بن میں
یہ چھیل چھبیلا کون پھرے اس متھرا کی نگری میں سکھیو
سبھی باتیں کہ اپنے شیام میں تھیں، اب دیکھ لو اس منموہن میں
سبھی بول مدھر سبھی نین سجل، کن گلیوں میں تم ہمیں لے آئے
اس من کو نہ لوگو بھٹکاؤ، یہ من ہے کسی کے بندھن میں
ہر شکل کا روپ نہیں ہوتا، ہر روپ کو نام نہیں دیتے
کچھ شکلیں ہیں آنکھوں میں، کچھ روپ ہیں من کے درپن میں
کبھی من کی اجنتا میں آؤ وہ مورتیں تم کو دکھلائیں
وہ صورتیں تم کو دکھلائیں، ہم کھو گئے جن کے درشن میں
ہر ایک پہ نظریں اٹھتی تھیں، ہر ایک پہ جی کو مچلنا تھا
اس شہر میں روپ کا کال نہیں، کچھ اور ہے اپنے ساجن میں
یا بن میں چکارے ملتے ہیں یا پیت کے مارے ملتے ہیں
کچھ پورب میں کچھ پچھم میں، کچھ اتر میں کچھ دکھن میں
شہروں میں پھرے سنیاس لئے، جنتا کو جگت بھگوان کہے
انشا سا کوئی رمتا دیکھا، کہنے کو ہیں جوگی ہر بن میں
ہم ان سے جو مل کر دور ہوئے، کچھ خوش ہوئے کچھ رنجور ہوئے
اب دل کا ٹھکانا مشکل ہے ہاں جان رہے گی ایمن میں
اس حسن کے نام پہ یاد آئے سب منظر فیض کی نظموں کے
وہی رنگِ حنا، وہی بندِ قبا، وہی پھول کھلے پیراہن میں
یوں کرنے کو عشق پہ قید نہیں، سب کرتے ہیں اچھا کرتے ہیں
پر ہم سے بہت بھی نہیں گزرے، کچھ لوگ تھے مصر و رائن میں
کبھی میر فقیر کی بَیتوں سے، کبھی غزلوں سے انشا صاحب کی
ان بِرہ کی بے کل راتوں میں ہم جوت جگاتے ہیں من میں

ابن انشا

No comments:

Post a Comment