Thursday 7 December 2017

نیا چوراہا​

نیا چوراہا​

قد آور آئینے لے کر
بونوں کا مخلوط جلوس ابھی گزرا ہے
لمبے لمبے بالوں والا اک دانشور
بازی گر کے بانس پہ چڑھ کر
گردن کی سب نسیں پھلائے چیخ رہا ہے

اونے پونے آدمیوں سے یہ مخلوق کہیں بہتر ہے
ہا ہا ہاہا ہی ہی ہی ہی ہو ہو ہو ہو
ہنستے ہنستے پورے آدمیوں کے جبڑے دُکھنے لگے ہیں
بجلی کی تیزی سے آ کر جیپ رکی ہے
ڈی ایس پی نے تھانیدار کو حکم دیا ہے
دانشور کے بانس کی، اپنے ڈنڈے سے لمبائی ناپو
بانس ناپ کر
تھانیدار کا ڈنڈا دانشور کی گردن ناپ رہا ہے
اور دانشور ہانپ رہا ہے
کانپ رہا ہے
ہا ہا ہاہا ہی ہی ہی ہی ہو ہو ہو ہو کی آوازیں
مدھم ہو کر ڈوب رہی ہیں
پورے آدمیوں کا مجمع
دونوں ہاتھوں سے دُکھتے جبڑوں کو دبائے
ہولے ہولے بکھر رہا ہے
کھلے دریچوں، وا دروازوں کے پٹ آپس میں ٹکرا کر
پوچھ رہے ہیں 
یہ سب کیا ہے؟
یہ سب کیوں ہے؟
دانشور کی سوچ سمجھ میں کچھ نہیں آتا
بازی گر کے سارے دعوے، سارے وعدے
جھوٹے نکلے
بازی گر نے اس کو بانس پہ چڑھنے سے پہلے جو کہا تھا
سب کچھ اس کے الٹ ہوا ہے
ریستوران کے اندر بونے ناچ رہے ہیں
ریستوران کے باہر ہاکر
اخباروں کی اس سرخی کو ڈھول بنا کر پیٹ رہے ہیں
آج کا سورج بھی کل کے سورج کی صورت
وقت سے پہلے چھپ جائے گا
کالی ڈائن رات افق پر
اپنے الٹے پاؤں پسارے پھیل رہی ہے
ہیبت
ہر گھر کے آنگن میں
زینہ زینہ اتر رہی ہے
دانشور کی سوچ سمجھ میں کچھ نہیں آتا
بازی گر کو بانس کے چِھن جانے کا دھڑکا لگا ہوا ہے

ظہور نظر

No comments:

Post a Comment