اک جو لے دے کے ہمیں شیوۂ یاری آیا
وہ بھی کچھ کام نہ خدمت میں تمہاری آیا
ان کے آگے لبِ فریاد بھی گویا نہ ہوئے
چپ رہے ہم، جو دمِ شِکوہ گزاری آیا
آرزو حال جو اپنا انہیں لکھنے بیٹھی
واں سے ناکام پِھرے ہم تو درِ یاس تلک
خونِ حرماں دلِ مجروح سے جاری آیا
دلِ پرشوق میں آئی کرمِ یار کی یاد
کہ چمن میں قدمِ بادِ بہاری آیا
تیرے انکار سے فی الفور ہوا کام تمام
زخم ایسا سرِ امید پہ کاری آیا
اور تو کچھ بھی ہمیں عشق میں حاصل نہ ہوا
ہاں مگر، ایک ہنر سینہ فگاری آیا
گِھر کے آئی جو گھٹا، ہم نے یہ جانا حسرت
وقتِ شورِیدگی و بادہ گساری آیا
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment