فساد سے پہلے
آج اس شہر میں
ہر شخص ہراساں کیوں ہے
چہرے
کیوں فق ہیں
گلی کوچوں میں
خاموش و سراسیمہ ہوا
آشنا آنکھوں پہ بھی
اجنبیت کی یہ باریک سی جھِلی کیوں ہے
شہر
سناٹے کی زنجیروں میں
جکڑا ہوا ملزم سا نظر آتا ہے
اکا دکا
کوئی راہگیر گزر جاتا ہے
خوف کی گرد سے
کیوں دھندلا ہے سارا منظر
شام کی روٹی کمانے کے لیے
گھر سے نکلے تو ہیں کچھ لوگ مگر
مڑ کے کیوں دیکھتے ہیں گھر کی طرف
آج
بازار میں بھی
جانا پہچانا سا وہ شور نہیں
سب یوں چلتے ہیں کہ جیسے
یہ زمیں کانچ کی ہے
ہر نظر
نظروں سے کتراتی ہے
بات
کھل کر نہیں ہو پاتی ہے
سانس روکے ہوئے
ہر چیز نظر آتی ہے
آج
یہ شہر اک سہمے ہوئے بچے کی طرح
اپنی پرچھائیں سے بھی ڈرتا ہے
جنتری دیکھو
مجھے لگتا ہے
آج تیوہار کوئی ہے شاید
جاوید اختر
No comments:
Post a Comment