منظر میں کوئی اور تصور میں کوئی اور
ہے تال میں دھن اور کوئی سُر میں کوئی اور
چہرے پہ تو کچھ اور ہی تحریر تھا لیکن
تصویر جھلکتی تھی دلِ حر میں کوئی اور
میں حیرتی حسن ازل کیا ہوں مگر سن
ایسے کسی منظر کی طلب ہی نہیں مجھ کو
آتا ہو نظر جس کے تناظر میں کوئی اور
آسودگئ عمرِ دوام اپنی جگہ یار
ملتا ہے مزہ دامِ تغیر میں کوئی اور
اس بار بھی احساں تو کسی اور کا ہو گا
نام آئے گا اظہارِ تشکر میں کوئی اور
سید انصر
No comments:
Post a Comment