Monday 11 December 2017

منظر میں کوئی اور تصور میں کوئی اور

منظر میں کوئی اور تصور میں کوئی اور
ہے تال میں دھن اور کوئی سُر میں کوئی اور
چہرے پہ تو کچھ اور ہی تحریر تھا لیکن
تصویر جھلکتی تھی دلِ حر میں کوئی اور
میں حیرتی حسن ازل کیا ہوں مگر سن
مجھ سا بھی نہیں اہلِ تحیر میں کوئی اور
ایسے کسی منظر کی طلب ہی نہیں مجھ کو
آتا ہو نظر جس کے تناظر میں کوئی اور
آسودگئ عمرِ دوام اپنی جگہ یار
ملتا ہے مزہ دامِ تغیر میں کوئی اور
اس بار بھی احساں تو کسی اور کا ہو گا
نام آئے گا اظہارِ تشکر میں کوئی اور

سید انصر

No comments:

Post a Comment