نشاں کسی کو ملے گا بھلا کہاں میرا
کہ ایک روح تھا میں جسم تھا نشاں میرا
ہر ایک سانس نیا سال بن کے آتا ہے
قدم قدم ابھی باقی ہے امتحاں میرا
مری زمیں مجھے آغوش میں سمیٹ بھی لے
چلا گیا ترے ہمراہ خوفِ رسوائی
کہ تو ہی راز تھا اور تو ہی رازداں میرا
تجھے بھی میری طرح دھوپ چاٹ جائیگی
اگر رہا نہ ترے سر پہ سائباں میرا
ملال رنگِ جلال و جمال ٹھہرا ہے
دیارِ سنگ ہوا ہے دیارِ جاں میرا
کئی نجیبؔ اسی آگ سے جنم لیں گے
کہ میری راکھ سے بننا ہے آشیاں میرا
نجیب احمد
No comments:
Post a Comment