اس کے ہونٹوں پہ بددعا بھی نہیں
اب مِرے واسطے سزا بھی نہیں
لفظ خاموشیوں کا پردہ ہیں
بولتا ہے وہ بولتا بھی نہیں
میں نے پھولوں کو کھلتے دیکھا ہے
ایک مدت سے ساتھ ہوں اپنے
اور میں خود کو جانتا بھی نہیں
حادثے عام ہو گئے اتنے
مڑ کے اب کوئی دیکھتا بھی نہیں
جانے کیوں دل کی آنکھ روتی ہے
میرے اندر کوئی مَرا بھی نہیں
فاروق بخشی
No comments:
Post a Comment