جانِ من، جانِ جاں
حکم ہے اس لیے
کر رہا ہوں بیاں
تو نے پوچھا ہے میں
کیسے جیتا ہوں اب
کیسے بڑھتی ہے شب
کیا لکھوں جان من
کیا کہوں جان جاں
حال بد حال ہے
اور فردا ازل کی طرح آج بھی
ادھ کھلا جال ہے
ان چلی چال ہے
صرف ماضی کا تھا اک دریچہ کھلا
جس میں چہرا ترا
گاہے ہنستا ہوا، گاہے اترا ہوا
دیکھ لیتا تھا میں
دکھ کے عرشے سے اب
جب کبھی بھی ادھر
میں نے کی ہے نظر
سوجھتا کچھ نہیں
نے دریچہ، نہ تو
دھند ہی دھند ہے
عمر کے چار سو
دیدہ ذات کی
چشم جذبات کی
حد بینائی میں
کار فرمائی میں
آ گئی ہے کمی
وقت کے جبر کی
صبر کی قبر کی
تھاہ کوئی نہیں
اپنی گیرائی سے، اپنی پنہائی سے
بچ نکلنے کی بھی راہ کوئی نہیں
زندگی کے لیے
سنگ تریاق کے
کوٹتے کوٹتے
زہر کے شہر کے
راستوں پر مرے
لفظ زخمی ہوئے
زخم چھلنی ہوئے
درد گوڑھے ہوئے
خواب بوڑھے ہوئے
شعر کہنا بھی اب چار دن اور ہے
اور رہنا بھی اب
چار دن اور ہے
الوداع جان من
الوداع جان جاں
ظہور نظر
No comments:
Post a Comment