جز طلب اس سے کیا نہیں ملتا
وہ جو مجھ سے ذرا نہیں ملتا
جان لینا تھا اس سے مل کے ہمیں
بخت سے تو سوا نہیں ملتا
زخم کھلنے کے منتظر کب سے
کس قدر بدنصیب بادل ہیں
جن کو دستِ دعا نہیں ملتا
میرا مسلک نہیں قصاص مگر
کیا مجھے خوں بہا نہیں ملتا
بستیاں آخری دموں پر ہیں
اور حرفِ شفا نہیں ملتا
ایک آسیب کے مکان میں ہوں
اور ردِ بلا نہیں ملتا
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment