Tuesday 26 December 2017

جز طلب اس سے کیا نہیں ملتا

جز طلب اس سے کیا نہیں ملتا
وہ جو مجھ سے ذرا نہیں ملتا
جان لینا تھا اس سے مل کے ہمیں 
بخت سے تو سوا نہیں ملتا
زخم کھلنے کے منتظر کب سے 
اور لمسِ ہوا نہیں ملتا
کس قدر بدنصیب بادل ہیں 
جن کو دستِ دعا نہیں ملتا
میرا مسلک نہیں قصاص مگر
کیا مجھے خوں بہا نہیں ملتا
بستیاں آخری دموں پر ہیں 
اور حرفِ شفا نہیں ملتا
ایک آسیب کے مکان میں ہوں 
اور ردِ بلا نہیں ملتا​

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment