خواب آنکھوں میں سوالی ہی رہے
کاسۂ تعبیر خالی ہی رہے
رقص کرتی خواہشوں کے زیرپا
دل شکار پائمالی ہی رہے
خاک ہو جاتے لہو کی آگ میں
زندگی ان سے سوا نکلی یہاں
فلسفے سارے خیالی ہی رہے
سبزۂ میداں پہ کب اتری خزاں
شور اس کا ڈالی ڈالی ہی رہے
چاند نکلا تو غضب ڈھا جائے گا
رات بہتر ہے یہ کالی ہی رہے
عبید صدیقی
No comments:
Post a Comment