Friday 22 December 2017

خواب آنکھوں میں سوالی ہی رہے

خواب آنکھوں میں سوالی ہی رہے 
کاسۂ تعبیر خالی ہی رہے 
رقص کرتی خواہشوں کے زیرپا 
دل شکار پائمالی ہی رہے 
خاک ہو جاتے لہو کی آگ میں 
جسم کے کوزے سفالی ہی رہے 
زندگی ان سے سوا نکلی یہاں 
فلسفے سارے خیالی ہی رہے 
سبزۂ میداں پہ کب اتری خزاں 
شور اس کا ڈالی ڈالی ہی رہے 
چاند نکلا تو غضب ڈھا جائے گا 
رات بہتر ہے یہ کالی ہی رہے 

عبید صدیقی

No comments:

Post a Comment