خمارِ قرب جو ٹوٹا، تمہیں پتا ہی نہیں
کہ وصل میں ہوں اکیلا، تمہیں پتا ہی نہیں
پلٹ دیا ہے ورق تم نے، جبکہ میں ہوں ہنوز
گزشتہ باب میں کھویا، تمہیں پتا ہی نہیں
بہت عزیز مجھے اپنے گھر کا ہے یہ سکوں
بُجھا سگار نظر آیا انگلیوں میں دبا
اِدھر ہے قلب سلگتا، تمہیں پتا ہی نہیں
دھرا تو خاک نہیں حرف و شعر میں، پھر بھی
خدا کا شکر! سخن کا تمہیں پتا ہی نہیں
فصیلِ ضبط کے اس پار امڈ کے آیا ہوا
ہے ایک سیلِ تمنا، تمہیں پتا ہی نہیں
ادیب و شاعر و واعظ کا رِہن رکھا ہے
خیال و حرف و فتوی، تمہیں پتا ہی نہیں
بُجھا ہی چاہتی ہے شب کی آخری شمّع
جو بعد میں ہے اندھیرا، تمہیں پتا ہی نہیں
بس ایک شب میں کھنڈر ہو گئی ہے بستئ دل
عذاب رات جو گزرا، تمہیں پتا ہی نہیں
دبیز شیشے کے پیچھے سے سانحہ بھی کوئی
محض ہے ایک تماشا، تمہیں پتا ہی نہیں
یونہی بکار دھڑکتا ہے بس ضمؔیر کا قلب
کوئی مشین ہے، گویا تمہیں پتا ہی نہیں
اویس ضمیر
No comments:
Post a Comment