ایک خط
چمن زادوں سے کہنا
دل نے ایسے زخم کھائے ہیں
وہ صدمے آزمائے ہیں
کہ اب لحنِ ہوا میں وحشتِ افتادگی ہے
اور نہ اندھی آنکھ خوابوں کو ترستی ہے
چمن زادوں سے کہنا
تم نے وہ باتیں بھلا دی تھیں
تو اب کیوں دل کو خانوں میں مقید کر رہے ہو
جانتے ہو
ہم تو ذوقِ قیدِ ہستی کے پرانے خوشہ چیں ہیں
جانتے ہو
ہم نے صدیوں کی گراں خوابی کو خود اپنا مقدر کر لیا تھا
جانتے ہو
وحشتِ افتادگی لذت ہے
اور لذت تو زخموں کے عقب سے آنے والی
اس حرارت کو کہا کرتے ہیں
جو صدموں کو کندن کر دیا کرتی ہے
خالد شریف
No comments:
Post a Comment