Saturday 23 December 2017

اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے

اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے 
ایسا نہ ہو زمیں کا جواب آسمان دے 
پڑھنا ہے تو نوشتۂ بین السطور پڑھ 
تحریر بے حروف کے معنی پہ دھیان دے 
سورج تو کیا بجھے گا مگر اے ہوائے مہر 
تپتی زمیں پہ ابر کی چادر ہی تان دے 
اب دھوپ سے گریز کرو گے تو ایک دن 
ممکن ہے سایہ بھی نہ کوئی سائبان دے 
میں سوچتا ہوں اس لیے شاید میں زندہ ہوں 
ممکن ہے یہ گمان حقیقت کا گیان دے 
میں سچ تو بولتا ہوں مگر اے خدائے حرف 
تُو جس میں سوچتا ہے مجھے وہ زبان دے 
سورج کے گرد گھوم رہا ہوں زمیں کے ساتھ 
اس گردشِ مدام سے مجھ کو امان دے 
میں تنگیٔ مکان سے نہ ہو جاؤں تنگ دل 
اپنی طرح مجھے بھی کوئی لا مکان دے 
میری گواہی دینے لگی میری شاعری 
یا رب مِرے سخن کو وہ حسن بیان دے

حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment