Friday 1 December 2017

انہیں بتاؤ جو کہتے ہیں کیا بچا مرے پاس

انہیں بتاؤ جو کہتے ہیں کیا بچا مِرے پاس
ہر ایک چیز لٹا کر خدا بچا مرے پاس
اٹھانے والے اٹھا لے گئے خزینۂ زر
میں خوش نصیب ہوں رختِ دعا بچا مرے پاس
کئی سماعتیں خائف ہیں اس لیے مجھ سے
سکوتِ شہر میں سنگِ صدا بچا مرے پاس
میں دشمنوں کے لیے یوں بھی فکرمند نہیں
کہ خیرخواہ بھی اب کون سا بچا مرے پاس
زباں کھلے تو بھرم دوستی کا جاتا ہے
خموش ہوں کہ یہی راستا بچا مرے پاس
زمانہ اس پہ بھی ناراض ہے کہ لے دے کر
حوالہ صرف تِرے نام کا بچا مرے پاس

سید انصر

No comments:

Post a Comment